Dawaai Blog

بسیار خوری یعنی بار بار کھانے کی عادت

بسیار خوری

Medically reviewed by Dr. Riaz Ali Shah.

ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اگر حد سے زیادہ کوئی بھی کام کیا جائے یا کچھ کھایا جائے تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔انسان کی  صحت کا دارومدار اچھی ، معیاری اور مناسب خوارک پر ہوتا ہے۔اگر اس میں ذرا سی بھی بے احتیاطی کرلی جائے یا زیادہ کھانا کھالیا جائے تو صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل سامنے آنے لگتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کم کھاتے ہیں اور بہت فٹ رہتے ہیں ان کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مناسب خوراک لیتے ہی اور خود کو تندرست رکھتے ہیں انھی کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہروقت کچھ نہ کچھ کھاتے ہیں اور بیمار ہونے کے ساتھ ساتھ مٹاپے کا شکارہوجاتے ہیں۔

زیادہ کھانے کے سبب غذا سے ملنے والی اضافی طاقت یعنی کیلوریز انسانی جسم میں چربی بن کر محفوظ ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس کے سبب انسان موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے، زیادہ کھانا اور کھانے کے دوران خود پر کنٹرول نہ رکھ پانا اوور ایٹنگ کہلاتا ہے۔

یہ ضروری نہیں ہے یہ کھانا یا روٹی ہی انسان کے مٹاپے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے علاوہ کھائی جانے والی چیزیں جن میں چاکلیٹ، چپس، نمکو، بیکری آئٹم وغیرہ وغیرہ یہ سب بھی صحت خراب کرنے کا ذریعہ ہیں۔جو لوگ ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں اور وقت بے وقت انھیں بھوک لگتی ہے تو وہ ایک ایسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں جسے بسیار خوری کہا جاتا ہے۔

بسیار خوری یعنی ہروقت کھانا کیا ہے؟

یہ وہ بیماری ہے جس میں مریض زیادہ اور کبھی بہت زیادہ کھانا کھا لیتا ہے۔یہ بیماری مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ایسے افراد کو موٹاپے کا شکار ہوں ان میں اکثر افراد بسیار خوری یعنی زیادہ کھانا کھانے کی وجہ سے اس حالت کو پہنچتے ہیں۔

بسیار خوری کی نشانیاں

بینج ایٹنگ یعنی بسیار خوری کا مطلب ہے کم وقت میں بہت زیادہ کھانا کھالینا۔اس بیماری کا شکار فرد کھانا اتنا زیادہ کھالیتاہے کہ اس کا پیٹ بھی پھولنے لگتا ہے۔یہاں تک کہ اس کے پیٹ میں پانی پینے کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔اس بیماری میں مبتلا مریض اس وقت تک کھانے سے ہاتھ نہیں روکتا جب اس کا پیٹ اچھی طرح بھر نہیں جاتا یا پھر پھول نہیں جاتا۔بسیار خوری کرنے والوں کو کھانے کے معاملے میں اپنے آپ پر کنٹرول نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ خوارک کو پیٹ کا حصہ بنا لیتا ہے اور نتیجے میں اسے مختلف بیماریوں کا سامنا ہونے لگتا ہے۔ایسے افراد صرف بھوک یا خالی پیٹ ہونے کی صورت میں ہی کھانا نہیں کھاتے بلکہ بھوک نہ لگنے کی صورت میں بھی کھانا کھاتے ہیں کیوں کہ انھیں ایک نفسیاتی اور ذہنی دبائو ہوتا ہے جس سے وہ مجبور ہوتے ہیں۔بسیار خوری کے شکار افراد موڈ خراب ہونے،ٹینشن یا غصے کی حالت میں ہوں تو اس وقت ضرورت سے زیادہ کھانا کھاتے ہیں اور اس سے ان کی ٹینشن ریلیز ہوتی ہے۔ایسے افراد کبھی سب کے سامنے نہیں بلکہ تنہائی میں شکم کو پُر کرتے ہیں۔اس مرض کا ان پر نفسیاتی اثر بھی ہوتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ انھیں بہت زیادہ کھانا کھانے کے بعد ندامت کا احساس ہوتا ہے، انھیں یہ سوچ اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ انھوں نے آخر اتنا کھانا کیوں کھایا۔بسیار خوری کے مرض میں مبتلا افراد سب کچھ کھانے کے بعد ڈائٹنگ بھی کرتے ہیں

بسیار خوری کے نقصانات

یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض اپنی بھوک اور اپنی عادت کے آگے کچھ نہیں دیکھتا اور خراب چیزیں بھی اس کے اندر داخل ہوجاتی ہیں جو دوسری بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔اس کو نفسیاتی بیماری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ اس میں مریض ذہنی تنائو، غصے اور جھگڑے کی صورت میں اور زیادہ کھاتا ہے جس سے اس کو سکون ملتا ہے۔بسیار خوریعنی وقت بے وقت اور ضرورت سے زیادہ کھانا یا پھر کوئی اور دوسری چیز کھانے والا عام شخص کی نسبت زیادہ سست اور کاہل ہوجاتا ہے۔اسے ہر وقت تھکن اور تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی کے کاموں کو باآسانی انجام نہیں دے سکتا۔اس ایک بیماری سے اور بہت ساری بیماری پیدا ہوتی ہیں خاص طور پر پیٹ کی بیماریاں زیادہ قابل ذکر ہیں۔بسیار خوری سے دل کے امراض میں بھی اضافہ ممکن ہوتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔جوڑوں اور پٹھوں کے درد کی ایک وجہ یہی بیماری ہے یعنی ہروقت کھاتے رہنا اور سوتے رہنا۔طبی ماہرین کے مطابق بسیار خوری انسان کو کند ذہن بھی بنا دیتی ہے۔یہ بیماری جگر کی بیماری کا سبب بھی بنتی ہے جس میں جگر متاثر ہو کر خون بنانا چھوڑ دیتا ہے اور صحت پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

علاج

اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس بیماری کے علاج کے بارے میں شبہات کا شکار رہتے ہیں کہ اس بیماری کا علاج کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا علاج ضرور کرنا چاہیے۔اچھی صحت کا دارومدار اچھی خوراک پر ہوتا ہے ، اس لیے اگر کوئی شخص بسیار خوری کا شکار ہے تو اس کا فوری طور پر علاج ہونا ضروری ہے۔ کھانے کے دوران ہمیشہ متوازن غذا اعتدال میں کھائی جائے۔اچانک ڈائٹنگ سے پرہیز کیا جائے، اور آہستہ آہستہ کم کھانے کی طرف توجہ دی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔کھانا کھاتے ہوئے پیٹ بھر کے کھانے کی بجائے پیٹ کا کچھ حصہ خالی رکھیں جو سنت عمل بھی ہے۔کھانا کھاتے ہوئے موبائل یا ٹی وی دیکھنے سے گریز کریں۔بھوک زیادہ ستائے تو زیادہ کھانے کی بجائے چہل قدمی پر توجہ دیں۔ورزش کو اپنا معمول بنالیں تاکہ صحت برقرار رہے۔کھانے کے دوران دن بھر میں کم سے کم 6 سے 7 گھنٹے کا وقفہ رکھیں۔کوشش کریں پھلوں اور سبزیوں کو خوراک کا زیادہ حصہ بنائیں ۔لیموں، سبز جائے اور قہوہ زیادہ استعمال کریں ۔اس بیماری کو دوائوں کی مدد سے بھی ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر کا مشورہ اور علاج ضروری ہے۔فرخ اظہار

Share:

Facebook
Twitter
Pinterest
LinkedIn

Related Posts

World Hepatitis Day

Let’s Eliminate Hepatitis

Medically reviewed by Dr. Muhammad Ashraf Shera. Let’s shine some light on Hepatitis which is not taken as seriously as it should be let’s discuss

Scroll to Top