Medically reviewed by Dr. Muhammad Ashraf Shera.
پریکلیمسیا ایک ایسی بیماری ہے جو دوران حمل بلڈ پریشر کے بڑھنے سے وجود میں آتی ہے، پریگنینسی کی صورت میں اپنے ڈاکٹر سے بلڈ پریشر کے حوالے سے کچھ نہ چھپائیں، ذرا سی بے احتیاطی ماں اور بچے دونوں کی زندگی کے لیے جان لیوا ہوسکتی ہے۔
پریگنینسی میں بلڈ پریشرخاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب پریگنینسی کے بعد عورت کا پہلا چیک اپ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے بلڈ پریشر کو دیکھا جاتا ہے اور ہر وزٹ پر اس پر خاص نظر رکھی جاتی ہے کیوں کہ اگر بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے تو بچے کی پیدائش اور ماں کی زندگی دونوں کے لیے ایک آزمائش بن جاتا ہے جس کے خطرناک نتائج سامنے بھی آسکتے ہیں۔
حاملہ خواتین میں دو طرح کے بلڈ پریشر ہوتے ہیں ایک ان کے حاملہ ہونے سے پہلے اگر بلڈ پریشر زیادہ رہتا ہے تو اس سے عورت کو خطرہ ہوتا ہے اور اگر پریگنینسی کے بعد بلڈ پریشر بڑھنے لگ جائے تو اس سے ماں اور بچے دونوں کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر پریگننٹ خواتین سے سب سے پہلے بلڈ پریشر کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں تاکہ دوران علاج ماں اور بچے دونوں پر بھرپور توجہ دی جا سکے۔
دوران حمل بلڈ پریشر کو خوراک سے ہی نہیں بلکہ ادویات سے کنٹرول کرنا پڑتا ہے جو کہ بہت ضروری ہوتا ہے، اکثر خواتین کہتی ہیں کہ اگر وہ نمک کا استعمال کم کردیں یا کوئی ایسی غذا خوراک کا حصہ بنالیں جس سے بلڈ پریشر کنٹرول ہوجائے تو یہ ممکن نہیں ہوتا اس کو کنٹرول کرنے کے لیے دوائوں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے جوکہ ماں اور بچے دونوں کی زندگی کو بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جو دوا عام دنوں میں بلڈ پریشر کے بڑھ جانے کی وجہ سے استعمال کی جاتی ہے اسے حمل کے دوران نہیں دیا جاسکتا، اس کے لیے ڈاکٹرز اور ہی ادویات تجویز کرتے ہیں جو فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔یہ ایسی دوائیں ہوتی ہیں جو پیٹ میں موجود بچے کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتیں جس سے بلڈ پریشر بھی کنٹرول رہتا ہے اور بچہ بھی محفوظ رہتا ہے۔اگر ان دوائوں سے بلڈ پریشر کنٹرول نہ ہو تو ڈاکٹر مریض کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی مقدار کو بڑھانا شروع کردیتے ہیں۔
حمل کے دوران بلڈ پریشر کے بڑھنے کے عمل کوپریکلیمسیا جیسی بیماری کا نام دیا جاتا ہے،یہ دراصل ایک ایسا عمل ہے جس سے دوران حمل بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے، پیشاب میں پروٹین آنا شروع ہوجاتا ہے،باڈی کے خاص آرگن ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں، خاص طور پر گردہ اور جگر متاثر ہوتا ہے۔
پریکلیمسیا خواتین میں پریگنینسی کے بیسویں ہفتے کے بعد سامنے آتی ہے، اگر اس بیماری پر فوری طور پر قابو نہ پایا جائے تو یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے آگے چل کر سنگین صورت اختیار کرسکتی ہےاگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
پریکلیمسیا کی علامات
اس کی پہلی علامت تو یہ ہے کہ مریض کا بلڈ پریشراکثروبیشتربڑھا ہوا رہتا ہے۔
تین چار گھنٹے میں ایک بلڈ پریشر چیک کرنے پرایک سو چالیس سے اوپرجا رہاہے تو یہ بھی اس بیماری کی اہم علامت سمجھی جاتی ہے۔
-یورین یعنی پیشاب میں پروٹین کی مقدار کا زیادہ ہونا
سر میں بارباربہت زیادہ درد کا ہونا،آنکھوں کا بھاری ہونا۔
آنکھوں سےدھندلا دکھائی دینا۔
روشنی آنکھوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہونا۔
سانس لینے میں دشواری کا ہونا۔
ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے پھیھپڑوں میں پانی کا بھر جانا۔
پیٹ کے اوپری حصے میں درد کا اٹھنا یا درد کا بار بار محسوس ہونا۔
یورین کی مقدار کا کم ہوجانا۔
وزن کا اچانک سے بڑھنا۔
-جسم کا پھولنااس پہ سوجن کا آجانا
ہاتھوں اور چہرے پر سوجن کا زیادہ دکھائی دینا۔
قے کا ہونا ، ویسے عموماً پریگنینسی کے دوران قے کا ہونا ایک فطری عمل ہے لیکن بہت زیادہ ہونا پریکلیمسیا کی طرف ایک اشارہ ثابت ہوتا ہے۔
نقصانات
اگر پریکلیمسیا کا فوری طورپرعلاج نہ کیا گیا تو اس میں آنے والے بچے کو بلڈ کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔
اس کی وجہ سے بچے کی اچھی طرح گروتھ نہیں ہو پاتی اور بچے کی صحت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
ایسی صورت میں پیدا ہونے والے بچے آگے چل کر مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ان کو صحت کے حوالے سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اکثر پریکلیمسیا کی وجہ سے وقت سے پہلے بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے یا کرنی پڑجاتی ہے ۔
ایسے بچوں کو دنیا میں آنے کے فوراً بعد سانس کی بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔
پریکلیمسیا کی وجہ سے وقت سے پہلے پیدائش کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔
پریکلیمسیا ہوجانے کی صورت میں ڈیلیوری کے دوران عورت کے خون بہنے کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس سے بلڈ میں پلیٹ لیٹس کم ہوجاتے ہیں۔
اس بیماری میں اکثر دورے بھی پڑتے ہیں جو ایک بالکل الگ صورت ہوتی ہے۔
ایسی صورت میں اس کا ایک ہی حل ہوتا ہے یعنی وقت سے پہلے بچے کی پیدائش تاکہ جان بچائی جاسکے۔
بلڈپریشر بڑھ جانے کی صورت میں ماں کو جھٹکے لگنے لگتے ہیں جو دونوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔
پریکلیمسیاہونے کی صورت میں فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
پریکلیمسیا میں ماں کے گردے فیل ہونے کا بھی بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔
پریکلیمسیا کن خواتین میں زیادہ ہوتا ہے
ایسی خواتین جن کے خاندان میں پہلے کوئی اس کا شکار ہو تو ان میں بھی یہ بیماری جنم لے سکتی ہے۔
ماں، بہن، یا پھر کوئی قریبی رشتے دار جو اس کا شکار رہے ہوں تو یہ خاندان میں منتقل ہو کر نسلوں تک سفر کرسکتی ہے۔
ایسی خواتین جو حاملہ ہونے سے پہلے بھی بلڈ پریشر کا شکار ہوں یا ذہنی دبائو کا شکار ہو ان میں پریکلیمسیا کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔
بھاری، موٹی اور فربہ خواتین جو اپنے وزن پر توجہ نہیں دیتیں انھیں پریکلیمسیا کا سامنا کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
زیادہ عمر کی خواتین یعنی پینتس سال سے زائد عمر کی خواتین میں پریگنینسی کے دوران پریکلیمسیا ہوتا ہے ۔
خواتین میں پریگنینسی کا وقفہ اگر دوسال سے کم یا دس سال سے زیادہ ہوگا تو ایسی صورت میں بھی اس بیماری کا چانس ہوتا ہے۔
جڑواں بچے ہونے کی صورت میں بھی پریکلیمسیا کے بڑھنے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے
احتیاط
دوان پریگنینسی تمام چیک اپ وقت پرکروائے جائیں۔
ہر چیک اپ میں بلڈ پریشرکا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جس سے اس بیماری کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
چھوٹے اسپتالوں میں ڈیلیوری سے گریز کیا جائے۔
ایسے اسپتال کا انتخاب کیا جائے جہاں میڈیکل کے حوالے سے بنیادی سہولیات میسرہوں۔
ایسی خواتین جوماں بننے سے پہلے ہی ہائی بلڈ پریشر کا شکارہوں ان کو چاہیے کہ وہ حمل ٹھہرجانے کی صورت میں سب سے پہلے اپنے ڈاکٹر کو بلڈ پریشر کے حوالے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ڈیلیوری ہونے تک ڈاکٹر مریض کے بارے میں آگاہ رہے اورعلاج کو آسان بنائے۔
علاج
بلڈپریشر کو کم کرنے کے لئے جس طرح عام دنوں میں نمک کم کرکے بلڈ پریشرکوکنٹرول کیا جاسکتا ہے اسی طرح احتیاطً اگرپریگنینسی کے دوران نمک کا کم ااستعمال رکھا جائے تو پریکلیمسیا جیسی بیماری جنم لینے سے بچ سکتی ہے۔
گوشت خاص طورپرگائے کے گوشت کھانے سے پرہیزکیا جائے۔
نمکین چیزوں کےعلاوہ باقی تمام چیزیں کھائی جاسکتی ہیں۔
ہر طرح کے پھل صحت بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے بہتر یہی ہے کہ دوران حمل پھلوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے
فرخ اظہار