باپ وہ ہستی ہے جواولاد کو زمانے کے نشیب و فرازسے آشنا کرتا ہے، کامیابی کے اس مقام پر پہنچاتاہے جس کی اولاد تمنا کرتی ہے، باپ کی اہمیت کو نظرانداز مت کیجیے، ان سے دوستی کا رشتہ بنائیں، زندگی گزارنے کا ہنر پائیں۔
کچھ رشتے اتنے قریبی اور خاص ہوتے ہیں کہ ان کا نعم البدل کوئی نہیں ہوسکتا۔ ان کے بغیر زندگی گزارنا کوئی آسان نہیں ہوتا، ہر موقعے پر رہنمائی کرنے والے، اچھے برے کی تمیز سکھانے والے، دکھ پریشانی میں ساتھ نبھانے والےاور ناکامیوں پر دل جوئی کرنے والے رشتوں میں ماں باپ کا رشتہ بہت ہی اہم اور قیمتی رشتہ ہوتا ہے۔
ماں باپ وہ ہوتے ہیں جو اولاد کو دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں، ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے، یہ دونوں اپنی اولاد کی خاطر ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، ان کی اچھی تعلیم کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، انھیں زمانے کی تُند آندھیوں اور تیز دھوپ سے بچاتے ہیں، لوگوں کے لہجوں اور رویوں سے آشنا کرتے ہیں، غرض یہ کہ انھیں جینا سکھاتے ہیں۔
ماں اور باپ دونوں کی اپنی الگ الگ ذمے داریاں ہوتی ہیں جنھیں وہ اچھے سے ادا کرتے ہوئےاچھی اولاد بلکہ ایک نسل کو پروان چڑھاتے ہیں، قدرت کے نظام کے مطابق باپ کی ذمے داری میں معاشی ضروریات کا پورا کرنا اور ماں کی ذمے داری میں اولاد کی بہترین تربیت شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اولاد اور ماں باپ کے درمیان جو ہم آہنگی ہوتی ہے وہ کسی اور رشتے میں ممکن نہیں۔
انھی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر میں اور دنوں کی طرح فادرز ڈے، یعنی والد سے محبت کا دن منایا جاتا ہے۔ویسے تو ماں باپ سے اولاد کو ہر وقت ہی محبت رہتی ہے، لیکن مصروفیت کے دور میں جب انسان دنیا کی بھیڑ میں گم ہونے لگتا ہے تو قریبی رشتوں کی طرف سے بھی اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے، وہ دنیا کے جھمیلے میں ایسا گم ہوجاتا ہے کہ قریبی رشتوں خاص طور پر ماں باپ کو وقت بھی نہیں دے پاتا۔
فادرز ڈے، اس حوالے سے نہایت اہم دن ہے، جو اس خاص رشتے کی یاد دلاتا ہے جو ہماری مصروفیت میں ہم سےغیراہم ہوتا جا رہا ہے،اس دن کا بنیادی مقصد باپ کی عزت، وقاراوراس کی عظمت کا اقراراوران کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔
والد گھر کی وہ بنیاد ہوتا ہے جس پر پوری عمارت قائم ہوتی ہے، وہ ستون ہوتا ہے جس کے بغیر عمارت کی تعمیر ممکن نہیں ہوسکتی، وہ اولاد کی اچھی پروروش اور تربیت کے لیے جان کی بازی تک لگا دیتا ہے، نہ تیز دھوپ کی فکر، نہ سردراتوں کی پروا، نہ آندھیوں کا خوف، نہ بارشوں کا ڈر، اولاد کو کامیاب اور سرخرو دیکھنے کے لیے وہ اپنی عمر اور آرام کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔
اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ باپ اور اولاد کے رشتے کو کس طرح مضبوط اور قائم رکھا جاسکتا ہے رشتوں کی زنجیر کبھی نہیں ٹوٹ سکتی۔ محبتوں کی یہ مالا جس میں خلوص، وفا اور احساس کے موتی ہوں وہ کبھی نہیں بکھر سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ باپ اور اولاد دونوں اپنی ذمے داریوں اور اپنے فرائض پر نظر رکھیں تاکہ یہ رشتہ دنیا کی نظر میں بے مثال بن جائے۔
والد کا دل جیتنے کا ہنر
٭ اولاد کی ذمے داری میں شامل ہے کہ وہ اپنے والد کا احترام کرے۔
٭ والد چاہے سخت مزاج ہی کیوں نہ ہو اولاد کو چاہیے کہ ان کی بات کو سنے اور اہمیت دے۔
٭ والد اگر بوڑھے یا بیمار ہیں تو ان کے علاج معالجے میں کوئی کمی یا کسر نہ رکھے۔
٭ اگر کسی بیماری کی وجہ سے چڑچڑاہٹ کا شکار ہے تو اولاد کو چاہیے کہ نرم رویہ اختیار کرے۔
٭ والد کے احسانات کو کبھی نہ بھولے جو اس نے اولاد کو بڑا آدمی بنانے کے لیے اپنی جان پر کھیل کر کیے۔
٭ اولاد کو چاہیے کہ اگر ان کے والد ان کی اچھی تعلیم کے لیے گھر بنانے سے محروم رہ گئے تو ایسا گھر تعمیر کریں جس میں ان کے لیے خاص جگہ ہو، انھیں اس میں ہر اختیار ہو۔
٭ والد عمر کے آخری حصے کو پہنچ جائے اور اس وقت بھی اولاد کے لیے کوئی فیصلہ کرے تو اس پر سرجھکائے، والد کو قصور وار نہ ٹھہرائے۔
٭ اولاد کو چاہیے کہ کسی بھی معاملے میں اپنے والد سے جھوٹ نہ بولے اور اسے کسی اندھیرے میں نہ رکھے۔
٭ والد سے دوستی کارشتہ قائم کرے لیکن احترام اور تہذہب کا دامن قطعی ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
٭ اولاد اگر برسر روزگار ہے تو اس کو چاہیے کہ ملازمت سے واپس آکر کچھ وقت اس والد کو ضرور دے جو سارا دن اس کی کامیابی کی دعائیں کرتا ہے اور اس کے گھر لوٹنے پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔
٭ والد اگرکسی ایسی بیماری کا شکار ہے جس میں باہر کی کھلی فضا ضروری ہے تو اولاد کو چاہیے کہ چہل قدمی کے لیے کچھ دیر انھیں کسی کھلے مقام پر یا پارک وغیرہ میں لے کر جائے ان کے ساتھ اچھا وقت گزارے ۔
والد کی اولاد پر ذمے داریاں
٭ والد چوں کہ اولاد سے ہمیشہ ہی عمر میں بڑے ہوتے ہیں انھیں چاہیے کہ اپنے تجربات اور مشاہدات سے اپنی اولاد کو زندگی جینا سکھائیں۔
٭ اولاد کی اچھی اور معیاری تعلیم جس حد تک ممکن ہو ان سے آراستہ کریں۔
٭ اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں لیکن غیر ضروری اور ناجائز خواہشوں کو حکمت اور سلیقے سے نظر انداز کریں۔
٭ اولاد کو ہروقت ڈانٹ ڈپٹ سے دور رکھیں۔
٭ اولاد کے سامنے غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے سے گریز کرے۔
٭ اولاد کی غلطیوں پر انھیں چوروں کی طرح مارنے کی بجائے پیار محبت کی زبان استعمال کریں۔
٭ کہیں کہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اولاد کی غلطیوں کو نظر انداز کریں، کیوں کہ ہر وقت کی پابندی اور سرزنش اولاد کو ضدی اور خود سر بنا دیتی ہے۔
٭ اولاد کے بہتر مستقبل کے بارے میں باہمی مشورے سے فیصلہ کرے۔
٭ اولاد پر جا بجا غصہ نہ کرے ، اس سے اولاد بدظن ہوجاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب والد کے دامن میں پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔
٭ تمام اولاد کے حقوق کا خیال رکھا جائے، کسی کی حق تلفی نہ کی جائے تاکہ اولادوں کے درمیان انتشار کی فضا پیدا نہ ہو۔
٭ اولاد اگر ہٹ دھرمی پہ اتر آئے یا بات ماننے کو تیار نہ ہو تو حکمت اور بردباری سے کام لیا جائے یہ نہیں کہ اپنی مرضی زبردستی اس پہ مسلط کردی جائے، ایسی صورت میں نتائج اچھے برآمد نہیں ہوتے۔
باپ کا رشتہ بہت انمول ہوتا ہے جو ساری زندگی محنت اور زمانے کی سختیاں برداشت کر کے بچوں کے خواب پورے کرتا ہے۔اولاد کو چاہیے کہ اس رشتے کا پاس رکھے۔ماں باپ سے ہی رشتوں کی کڑی بنتی ہے ، اگر یہ کڑی کہیں سے ٹوٹ جائے تو پھر اس کا جڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔والد کی قدر کیجیے ہر حال میں ہر صورت میں، کیوںکہ جو بھی کامیابی آپ کو نصیب ہوتی ہے اس میں سب سے بڑا کردا ر اس باپ کا ہی ہوتا ہے جواپنا خون پسینہ ایک کر کے اولاد کو کامیاب بناتا ہے۔
فرخ اظہار